بلائے صحبت لیلیٰ و فرقت لیلیٰ

أ‌.               لیلیٰ مجنوں

حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ دفعتاً (یعنی اچانک ) سوتے سوتے اُٹھ بیٹھے اور بہت روئے ۔ لوگو ں نے سبب دریافت کیا، فرمایا :''میں نے دیکھا ربّ العزت (عَزَّوَجَلَّ) کو کہ فرماتا ہے تُو اشعارِ لیلیٰ و سلمیٰ کو مجھ پر محمول کرتا ہے، اگر میں نہ جانتا کہ تو مجھ سے محبت رکھتا ہے تو وہ عذاب کرتا جو کسی پر نہ کیا ہو۔''
ب‌.        یہ چند اشعار
لیلیٰ مجنوں کا شاعری میں ذکر
أَمُرُّ عَلَی الدِّیَارِ دِیَارِ لَیْلٰی
أُقَبِّلُ ذَا الْجِدَارِ وَ ذَا الْجِدَارَا
وَمَا حُبُّ الدِّیَارِ شَغَفْنَ قَلْبِیْ
وَلٰکِنْ حُبُّ مَنْ سَکَنَ الدِّیَارَا
 ترجمہ: میں لیلیٰ کے علاقے سے گزرتا ہوں تو دیواروں کو بوسے دیتا ہوں۔ اس علاقے کی محبت میرے دل پر غالب نہیں بلکہ میں اس کی محبت میں ایسا کرتا ہوں جواس میں رہتا ہے۔



ونُبِّئْتُ لَیْلٰی اَرْسَلَتْ بِشَفَاعَۃٍ
اِلَیَّ فھَلَّا نَفْسُ لیلٰی شَفِیْعُھا
ترجمہ:  مجھے خبر دی گئی ہے کہ لیلیٰ نے میرے پاس سفارشی بھیجا ہے لیلی خود سفارشی بن کر کیوں نہیں آئی۔
اپنے بیمار محبت کی عیادت کے لئے
تو جو آتا تو نہ آتا تیری کچھ شان میں فرق
 فَیَارَبِّ اِنْ اَھْلِکْ ولم تُرْوِ ھَامَتِی
بِلیلٰی اَمُتْ لا قبرَ اَعْطَشُ مِنْ قبرِی
ترجمہ: اے میرے رب! اگر میں اس حال میں مرگیا کہ تو نے آبِ لیلیٰ سے مجھے سیراب نہ کیا تومیں اس حال میں مروں گا کہ میری قبر سے زیادہ کوئی قبر پیاسی نہیں ہوگی ۔
پکارتے ہیں یہ لب خشک ساحلوں کی طرح
 کب آئے گا کوئی برکھا بادلوں کی طرح
دو گونہ رنج و عذاب است جان مجنوں را
بلائے صحبت لیلٰی و فرقت لیلٰی
 (مجنون کی جان کے لئے دوہرا دکھ اور عذاب ہے صحبت لیلیٰ کی مصیبت اور لیلیٰ کا فراق)
ت‌.        مثنوی مولانا
حضرت مولانا قدس سرہ مثنوی شریف میں حضرت مجنوں رحمہ اﷲ تعالٰی کی حکایت تحریر فرمائی کہ کسی نے ان کودیکھا کمال محبت کے طورپر ایک کتے کے بوسے لے رہے ہیں، اعتراض کیا کہ کتا نجس ہے چنیں ہے چناں ہے۔ فرمایا نہیں جانتا
کاین طلسم بستہ مولٰی ست ایں
پاسبان کوچہ لیلٰی ست ایں
 (جیسے یہ اﷲ کی بنائی ہوئی تصویر ہے، یہ(کتا) لیلیٰ کی گلی کا چوکیدار ہے۔)
ث‌.        حضرت علی
 شیر شمشیر زن شاہ خیبر شکن
پرتودستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
حضرت علی کی نو بیویاں ہوئیں: جن میں سے ایک لیلیٰ بنت مسعود ہیں۔ ان نو بیویوں سے۱۲ بیٹے اور نو لڑکیاں ہوئیں جن میں سے حسن، حسین، ز ینب، اُم کلثوم حضرت فاطمہ زہرا سے ہیں۔
ج‌.           مجنوں نے اپنا نام لیلیٰ بتلایا
مجنوں سے کسی نے پوچھا: تیرا نام کیا ہے؟ بولا لیلیٰ!
 ایک دن اُس سے کسی نے کہا: کیا لیلیٰ مرگئی؟ مجنوں نے جواب دیا: لیلیٰ نہیں مری وہ تو میرے دل میں ہے اور میں ہی لیلیٰ ہوں ،
ایک دن جب مجنوں کا لیلیٰ کے گھر سے گزر ہوا تو وہ ستاروں کو دیکھتا ہوا گزرنے لگا، کسی نے کہا: نیچے دیکھو شاید تمہیں لیلیٰ نظر آجائے۔ مجنوں بولا: میرے لئے لیلیٰ کے گھر کے اوپر چمکنے والے ستارے کی زیارت ہی کافی ہے۔
عَلٰی مِثْلِ لَیْلٰی یَقْتُلُ الْمَرْءُ نَفْسَہٗ
وَاِنْ کَانَ مِنْ لَیْلٰی عَلَی الْہَجْرِ طَاوِیًا
ترجمہ: لیلیٰ جیسی پر ہی آدمی اپنی جان لے لیتا ہے ، اگرچہ پہلے ہی لیلیٰ کی جُدائی پر ذہنی طور پر تیّار تھا ۔
ح‌.           شب معراج
پھیلا ہوا ہے سرمۂ تسخیر چرخ پر
یا زلف کھولے پھرتی ہیں حوریں اِدھر اُدھر
دیکھوں جو چشم قیس سے لیلیٰ کہوں اسے
اپنے اندھیرے گھر کا اجالا کہوں اُسے
اَبرِ سیاہ مست اُٹھا حالِ وجد میں
لیلیٰ نے بال کھولے ہیں صحرائے نجد میں
بہکا ہے کہاں مجنوں لے ڈالی بنوں کی خاک
دم بھر نہ کیا خیمہ لیلیٰ نے پَرے دل سے
ترا مجنوں ترا صحرا ترا نجد
تری لیلیٰ ترا محمل ہے یا غوث

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس پوسٹ پر اپنا خوبصورت تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سبھی پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مُضارع کی گردان لامِ تاکید اور نونِ ثقیلہ کے ساتھ

گلزار نستعلیق فونٹس میں پوسٹ