میں فقط چلتی رہی منزل کو سر اس نے کیا ساتھ میرے روشنی بن کر سفر اس نے کیا اس طرح کھینچی ہے میرے گرد دیوار خبر سارے دشمن روزنوں کو بے نظر اس نے کیا مجھ میں بستے سارے سناٹوں کی لے اس سے بنی پتھروں کے درمیان تھی نغمہ گر اس نے کیا بے سرو ساماں پہ دلداری کی چادر ڈال دی بے درو دیوار تھی میں مجھ کو گھر اس نے کیا پانیوں میں یہ بھی پانی ایک دن تحلیل تھا قطرہ بے صرفہ کو لیکن گہر اس نے کیا ایک معمولی سی اچھائی کو تراشا ہے بہت اور فکر خام سے صرف نظر اس نے کیا پھر تو امکانات پھولوں کی طرح کھلتے گئے ایک ننھے سے شگوفے کو شجر اس نے کیا طاق میں رکھے دیے کو پیار سے روشن کیا اس دیے کو پھر چراغ رہ گزر اس نے کیا