نذرانۂ عقیدت
چار سو آستانے کا پھیلا ہے نور مثلِ شمس و قمر کیسا چمکا ہے نور گفتگو نور کی جستجو نور کی جسم نوری ہے تیرا لبادہ ہے نور نور خوباں سے نوری ہے پیرِ سلیم بوئے خونِ شہیداں سے مہکا ہے نور نوریوں کے دلوں کو کیے ہے حصار علم و حکمت سے پُر میٹھا میٹھا ہے نور قلبِ شاہد کو بھی تو معطر کرے تیری سانسوں کا جو مہکا مہکا ہے نور شاہد شیخ