اندازِ تربیت

بھگوڑا
ایک لڑکا گھر سے بھاگنے کا عادی تھا، بار بار بھاگتا اور ماں باپ اسے تلاش کرتے پھرتے۔ جب ڈھونڈ کر لاتے تو پھر کچھ عرصہ کے بعد بھاگ جاتا، آخر کار ماں باپ اس کے بار بار بھاگنے سے تنگ آگئے اور ایک مردِ کامل کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ہمارا لڑکا یوں کرتا ہے۔ اس مردِ کامل نے  کہا: ’’تمہاری محبت کی زیادتی نے اُس کو ایسا بنا دیا ہے، اب اگر بھاگے تو تم اس کی پروا نہ کرنا، خود پریشان ہو کر جب واپس آئے گا تو کبھی نہ بھاگے گا۔‘‘ چنانچہ ماں باپ نے ایسا ہی کیا اور اس مردِ قلندر کی بات پر عمل کیا اور اسے نہ ڈھونڈا، آخر کار پریشان حال، دکھی، ٹھوکریں کھاتا، گرتا پڑتا ماں باپ کے پاس پہنچا تو پھر کبھی ماں باپ کو چھوڑ کر نہ گیا۔ (تفسیرِ نعیمی، ج۲، ص ۴۲۷)
فراق سے وصال
 مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خانؒ تفسیرِ نعیمی میں حضرت سیدنا علامہ اسماعیل حقیؒ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں: شیخ طریقت کو چاہیے کہ مریدین کی ایک دو غلطیاں تو معاف کرے لیکن جب محسوس کرے کہ مرید جرم کا عادی ہو چکا ہے تو اس سے تعلق توڑ دے، اسے خود سے بالکل دور کردے، اب وہ کتنی ہی آہ و زاری کرے کتنا ہی روئے دھوئے مگر اسے اپنے پاس نہ بلائے، بلکہ اس سے کہے:  کچھ دن مجرموں کے ساتھ رہ کر ان کا انجام دیکھ، پھر جب تمہیں ان کی حرکات سے پوری نفرت ہو جائے تب میرے پاس آنا کہ تمہیں ہماری صحبت کی قدر ہو اور پھر تم جرم سے باز رہو۔ 
مزید فرماتے ہیں: کبھی فراق (جدائی) بھی ذریعہ وصالِ دائمی (ہمیشہ کے ملاپ کاذریعہ) ہو جاتا ہے، ہجر (جدائی) سے وصل کی قدر ہوتی ہے۔
( تفسیرِ نعیمی، ج۲، ص ۴۲۶ بحوالہ تفسیر روح البیان، ج ۱، ص۳۵۹) 

تبصرے

  1. بہت شاندار اور سبق آموز پوسٹ ہے اللہ تعالیٰ مجھے ایسا مرید بننے سے محفوظ فرمائے جس میں شیخ کی توجہ سے راندہ درگاہ ہو جاؤں۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جزاک اللہ! بہترین لوگ وہی ہوتے ہیں جو نصیحت کی بات کو خود پر لیتے ہیں، اگرچہ وہ ان کیلئے نہ ہو۔

      حذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس پوسٹ پر اپنا خوبصورت تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سبھی پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مُضارع کی گردان لامِ تاکید اور نونِ ثقیلہ کے ساتھ

گلزار نستعلیق فونٹس میں پوسٹ