شرافت کا ڈھونگ

شرافت کا ڈھونگ

شریف ہونا اور بات ہے اور شرافت کا ڈھونگ رچانا اور بات ہے۔ جو واقعی شریف ہوتا ہے چاہے وہ اکیلے ہو یا پبلک میں سب جگہ شرافت کا نمائندہ نظر آئے گا لیکن جو شریف ہونے کا ڈرامہ کر رہا ہوگا اس کا اکیلا پن گناہوں کی آمیزش سے آلودہ ہوگا اور آج کل زیادہ تر لوگوں کی یہی بیماری ہے سامنے تو سچائی اور نیکی کی مورت نظر آتے ہیں لیکن در پردہ ان کے اندر شیطان اور نفس کی پرستش چل رہی ہوتی ہے۔

    کئی لوگ جو خود کو نیک اور اچھا ظاہر کرتے ہیں ان کی پرسنالٹی لوگوں کے سامنے تو بہت شرفاء ہوتی ہے لیکن اکیلے میں بالکل الگ ہو جاتی ہے۔ جو سب کے سامنے اخلاق کا پیکر نظر آتے ہیں گھر میں آ کر بد مزاج اور ایسے چڑچڑے ہو جاتے ہیں جیسے ساری دنیا کا کام اس اکیلے نے ہی کر دیا ہو۔

    شیخ کے سامنے تو ٹوپی پہن کر یا عبایا نقاب لگا کر اس طرح جاتے ہیں جیسے ان سے بڑا حاجی ثناء اللہ کوئی بھی نہیں اور گھر واپس آ کر پھر وہی دنیا کی رنگینی اور عیاشی میں لگ جاتے ہیں۔ وہی نامحرموں کو دیکھنا ان کے بارے میں سوچنا اور ان سے باتیں کرنا ساری ساری رات ان سے چیٹنگ کرنا یا وڈیو کالنگ کرنا وغیرہ وغیرہ۔
    یہ دھوکہ نہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور نہ ہی شیخ محترم یا اپنے والدین کو دیا بلکہ یہ دھوکہ سراسر ان کی اپنی ذات کو ہوا۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے کہ والدین کے سامنے تو بہت نیک اور اچھے نظر آئے اور دوستوں میں اپنے والدین کو گالی دیتے نظر آئے اور ساری فضول حرکتیں کرتے نظر آئے۔
    شیخ سے اچھائی پر عمل کرنے کا ان کی باتوں کو نبھانے کا وعدہ کر کے چلے آئے اور گھر آ کر یا دوستوں میں پھر سے وہی کمینہ پن جس سے منع کیا گیا تھا۔ سب کے سامنے بڑی لمبی لمبی نمازیں اور گھر آ کر دھکا پیل والی نمازیں لوگوں کے سامنے اخلاص کا لیول الگ اور اکیلے میں حمام میں سب برہنہ ہے ایسا حال۔
    اصل مخلص تو وہی ہے جس کا ظاہر بھی نیک ہو باطن بھی نیک ہو جو مجمعے میں تو بھی خیالات پاک ہوں تنہائی میں ہو تو بھی پرواز تخیل پاک ہو۔ جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو جو سب سے ادب و احترام سے ملتا ہو جو لوگوں سے صلہ رحمی کرتا ہو ان سے اخلاق سے ملتا ہو۔
    لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق گفتگو کرنا یہ ایک بالکل الگ بات ہے لیکن لوگوں کے ساتھ منافقت سے ملنا بالخصوص اپنے والدین، شیخ محترم، بزرگ، دوست یا رشتے دار یعنی انہیں یہ ظاہر کرنا ہم بڑے ہی پارسا ہیں لیکن جب اکیلے ہوں تو موبائل پر فحش مواد بھی دیکھا جا رہا ہے اور گندے خیالات سے محظوظ بھی ہوا جا رہا ہے۔
    دو رنگی چھوڑ یک رنگ ہو جا
    سراسر موم یا سنگ ہوجا ۔۔۔۔۔
    خدا کے لیے اپنا آپ ایک کریں نیک کریں یہ رنگ برنگے چہروں کا جال نکال پھینکیں اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہو گا جب آپ کی صحبت اللہ والوں کے ساتھ ہو گی آپ اکیلے کبھی کچھ نہیں کر سکتے کیوں کہ باہر شیطان گھوم رہا ہے اندر نفس اچھل اچھل کر چھلانگیں لگا رہا ہے۔
    اللہ والوں کی صحبت، اللہ تعالیٰ کا ذکر، درود پاک کی کثرت اور سنتوں پر عمل اس کا علاج ہے لہذا خود سے یہ عہد کریں کہ اپنے اندر سے یہ دوغلا پن نکال کر صحیح معنوں میں نیک بننے کی کوشش کریں گے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ اللّہ تعالیٰ ہمیں اپنے نیک بندوں میں شامل فرمائے آمین یارب العالمین۔

    تبصرے

    1. پوسٹ تو اچھی ہے، بس چھلکا (فلسفہ) زیادہ ہے، مغز کم ہے۔

      جواب دیںحذف کریں
    2. شیخ محترم فلسفے سے کس طرح جان چھڑاؤں اس کا علاج بھی تجویز فرما دیں شکریہ۔

      جواب دیںحذف کریں
    3. اس پوسٹ کا لیبل غلط ہے، اسے درست کرلیں۔ شکریہ

      جواب دیںحذف کریں

    ایک تبصرہ شائع کریں

    اس پوسٹ پر اپنا خوبصورت تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سبھی پسند کرتے ہیں۔

    اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

    مُضارع کی گردان لامِ تاکید اور نونِ ثقیلہ کے ساتھ

    گلزار نستعلیق فونٹس میں پوسٹ