اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب پر یقین

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حوالے
پرانے دور میں اکثر مائیں جب اپنے بچوں کو باہر بھیجتی تھیں تو انہیں کہتی تھی جاؤ اللہ کے حوالے رسول کے حوالے اور یہ کہہ کر وہ مطمئن ہو جاتی تھیں۔ کیونکہ مشائخ عظام نے ان کے شوہروں کی بہترین تربیت کی ہوئی تھی اور وہی تربیت اللہ تعالیٰ اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات پر یقین اور بھروسہ سکھاتی تھی۔
آج کل صرف کہنے کی حد تک لوگوں کا یقین اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے لیکن دل سے یقین نہیں جب کہ ایمان کی شرط ہے زبان سے اقرار کرنا اور دل سے گواہی دینا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم الشان میں سورۃ ھود میں واضح فرما دیا ہے۔
وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ  فِی الۡاَرۡضِ  اِلَّا عَلَی اللّٰہِ  رِزۡقُہَا وَ یَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّہَا وَ مُسۡتَوۡدَعَہَا ؕ کُلٌّ  فِیۡ  کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۶﴾
ترجمہ: اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو اور جانتا ہے کہ کہاں ٹھہرے گا اور کہاں سپرد ہو گا سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب میں ہے۔
(سورۃ ھود آیت نمبر 6)
یہ آیت مسلمانوں نے کئی بار علماء سے مشائخ سے سنی بھی اور پڑھی بھی لیکن اس کا یقین نہیں کیا اگر یقین کیا ہوتا تو آج حرام طریقے سے مال کمانا، دھوکہ دہی، فراڈ، مال غبن کرنا، سود، یتیم کا مال ہڑپ کر جانا، بہنوں کا جائداد میں سے حصہ کھا جانا یا بھائی کا حصہ کھا جانا ہوں عام نہ ہوتا۔ ہر کوئی اس فراق میں ہے کہ میں جائز ناجائز کسی بھی طریقے سے راتوں رات امیر بن جاؤں۔
اگر مسلمانوں کا اس بات پر یقین ہوتا کہ رزق دینے والی ذات اللہ کی ہے اور ہمیں حلال اسباب اختیار کر کے رزق کی کوشش کرنی ہے تو وہ کبھی بھی لقمہ حرام یا حرام کام یا شیطانی کاموں کی جانب توجہ نہیں کرتے پر افسوس مسلمان اس یقین سے کوسوں دور ہے۔
رزق میں تنگی کی وجہ صرف اور صرف بندے کے اعمال ہیں بندے کو چاہیے اپنے اعمال اور کرتوتوں پر نگاہ رکھے اسے درست بنائے اور روحانی و جسمانی رزق میں خود کو پھلتا پھولتا دیکھے۔ 
اپنے معاملات کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حوالے کرنا سیکھیں۔ احتیاط پوری اختیار کریں جیسا کہ کوئی گاڑی یا بائیک اس پر تالا لازمی لگائیں لیکن حوالے اللہ تعالیٰ کے کریں پھر دیکھیں آپ کے کام کیسے بن جائیں گے۔
حاتم عصم رحمتہ اللہ علیہ بہت ہی نیک بزرگ تھے اور جو لوگ نیک ہوتے ہیں ان کے گھروں میں بھی ہر وقت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت بھری باتیں ہوتی رہتی تھیں اور کس بچے پر وہ باتیں کیا اثر کر جائیں یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں۔ 
حج کا موسم تھا اور حاتم عصم کا دل حج پر جانے کے لیے بہت بے چین تھا پر افسوس ان کے پاس وسائل بالکل نہیں تھے۔ گھر میں بیوی تھی اور بیٹیاں تھیں یعنی گھر میں سوائے ان کے اور کوئی مرد نہیں تھا مالی حالات بہت خراب تھے لیکن اس حسرت کا کیا کریں جو ان کے دل میں اٹھ رہی تھی۔
انہوں نے ایک دن اپنے دل کی خواہش کا اظہار اپنے گھر والوں سے کر دیا کہ میں حج کے لیے جانا چاہتا ہوں پر میرے پاس نہ جانے کے لیے پیسے ہیں اور نہ ہی اتنے پیسے ہیں کہ پیچھے تم لوگوں کو دے کر چلا جاؤں۔ بیوی نے کہا آپ دیکھ ہی رہے ہیں گھر کے حالات کیسے ہیں بڑی بیٹیوں نے بھی دبے لفظوں میں یہی کہا کہ ابا جان آپ کے سامنے ہے ہمارے اپنے کھانے پینے کا لالے پڑے ہوئے ہیں ایسے میں آپ کس طرح حج کے لیے جا سکتے ہیں؟
سب سے چھوٹی بیٹی سب کچھ غور سے سن رہی تھی وہ سات یا آٹھ سال کی ہوگی۔ کہنے لگی رزاق تو اللہ تعالیٰ ہیں ابو تو صرف رزق پہنچانے کا ذریعہ ہیں تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے انہیں جانے سے کیوں روکتی ہو!!! ابو آپ بے فکر ہو کر حج کے لیے جائیں اللہ تعالیٰ سب بہتر فرمائیں گے۔ چھوٹی بیٹی کی بات سن کر باپ کا سینہ محبت سے چوڑا ہو گیا اور باقی گھر والے بھی خاموش ہو گئے۔
حاتم عصم رحمتہ اللہ علیہ حج کے لیے چلے گئے پیچھے گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی کچھ رشتے دار اور محلے والے آئے مدد کرنے کے لیے نہیں بلکہ جلتی پر تیلی کا کام کرنے۔ ارے دیکھو کتنا عجیب انسان ہے بیوی بچوں کو فاقوں پر چھوڑ کر حج کے لیے چلا گیا اور جب رشتے داروں کو یہ معلوم ہوا یہ سب کچھ چھوٹی بیٹی کی وجہ سے ہوا ہے تو وہ چھوٹی بچی کو برا کہنے لگے۔
اس چھوٹی سی لڑکی جس کا دل بہت بڑا تھا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی عظمت اس کے دل میں سمائی ہوئی تھی وہ روتے ہوئے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی ہے یا اللہ مجھے ان محلے والوں اور رشتے داروں کے سامنے رسوا نہ ہونے دینا اور روتے روتے دعا مانگتے مانگتے بھوکی ہی سو گئی۔
وقت کا حاکم گزر رہا تھا راستے میں اسے شدید پیاس محسوس ہوئی اس نے خادم سے کہا پانی لاؤ خادم کہنے لگا حضرت پانی لینا بھول گئے غلطی سے۔ آپ فکر نہ کریں ہم کسی گھر سے لا کر آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے سامنے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے حاتم عصم کی بیوی نے پوچھا کون ہے باہر سے آواز آئی ہم سلطان کے خادم ہیں انہیں پیاس لگی ہے آپ کی بڑی مہربانی ہو گی اگر پانی مل جائے تو۔
ادھر حاتم  عصم کی بیگم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اللہ تعالیٰ سے بات کرنے لگیں کہنے لگیں واہ رے مولا تیری شان نرالی ہے کہاں ہم ساری رات بھوکے سوتے رہے اور صبح صبح وقت کا حاکم ہمارے دروازے پر سوالی بن کر کھڑا ہے۔ 
حاتم عصم کی بیگم صاحبہ نے اندر سے نیا اور خوبصورت برتن نکالا اور مٹکے سے پانی نکال نکال کر ان سب کو بڑے ادب و احترام سے پیش کیا ان کی حیثیت کے مطابق۔ سلطان نے جب پانی پیا اسے پی کر اسے اتنا سکون ملا اس کی روح تک سیر ہو گئی اور اس نے یہ بھی دیکھا ان کی بہت عزت بھی کی گئی اس نے وزیر سے پوچھا بھائی یہ کون امیر لوگ ہیں؟ وزیر نے کہا یہ کسی امیر کا نہیں بلکہ کسی فقیر کا گھر لگتا ہے محلوں والوں سے پتہ چلا ہے کہ وہ فقیر سب کو چھوڑ چھاڑ کر حج کے لیے چلا گیا ہے اور یہاں اس کے گھر والے فاقوں پر ہیں۔
سلطان نے یہ سنا تو اس نے کہا اب تو یہ ہمارا فرض بنتا ہے ہم اس کے گھر والوں کی مدد کریں۔ اس نے اپنے ہیرے جواہرات سے جڑی ہوئی بیلٹ حاتم عصم کے گھر کے صحن میں پھینک دی اور باقی ساتھیوں کو بھی یہی حکم دیا۔ وزیر نے پوچھا سلطان بیلٹ پھینکے کا مقصد؟ سلطان نے کہا میں انہیں انعام و اکرام سے نوازنا چاہتا ہوں لیکن مجھے ڈر یہ ہے کہ انعام لے جانے والا پتہ نہیں ان تک پہنچائے یا نہیں لہذا یہ ضمانت کے طور پر یہاں چھوڑی ہیں تاکہ وہ انعام دے کر ہماری بیلٹیں یہاں سے واپس لے جائے۔
ادھر حاتم عصم کی بیوی حیران تھی کہ سلطان نے اتنی قیمتی بیلٹیں صحن میں کیوں پھینکی ہیں۔ لیکن شام تک انہیں اس کا جواب مل گیا سلطان کے خادم آئے اور حاتم عصم کی بیگم کو کہا یہ سلطان نے آپ لوگوں کی خدمت میں نذرانہ بھیجا ہے قبول کریں اور وہ ساری بیلٹیں واپس کر دیں۔ حاتم عصم کی بیگم بہت خوش ہو گئیں کیونکہ وہ نذرانہ ان کی ساری زندگی کے لیے بہت کافی تھا۔ سارا گھر خوش تھا لیکن وہ چھوٹی بیٹی زار و قطار رو رہی تھی۔ سب نے حیران ہو کر پوچھا اب تو خوش ہونا چاہیے ہمارے سارے غم دور ہو گئے تم پھر بھی تو رہی ہو؟ وہ کہنے لگی مخلوق کی نظر پڑی تو ہمارے دن پھِر گئے اگر خالق کی نظر پڑ جاتی تو ہمارا کیا عالم ہوتا۔
بچی کا اللہ تعالیٰ سے اتنا پیار دیکھ کر باقیوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ وہ بچی ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے کہنے لگی یا اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صدقے سے جس طرح آپ نے ہماری مدد فرمائی اسی طرح میرے والد صاحب کو بھی حج کروا دیجیے گا۔
ادھر حاتم عصم حج کے لیے پیدل ہی چل پڑے نہ سواری نہ کھانا نہ پینا نہ کچھ تین چار میل کا سفر پیدل طے کر لیا۔ راستے میں دیکھا ایک قافلہ چلا آ رہا ہے۔ قافلے کا امیر سر درد سے اتنا پریشان تھا کہ وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا سب لوگ حکیم ڈھونڈ رہے تھے لیکن حکیم ملا ہی نہیں کسی نے مشورہ دیا کسی فقیر سے دعا کروا لیں سر درد ٹھیک ہو جائے گا۔ امیر نے کہا فقیر کہاں سے لاؤں اتنے میں کیا دیکھا حاتم عصم سامنے سے چلے آ رہے ہیں۔ حضرت وہ دیکھیں سامنے سے ایک فقیر چلا آ رہا ہے اور مسافر بھی لگتا ہے۔
حاتم عصم کو قافلے سے سردار کے پاس لایا گیا اور کہا ان کے سر میں درد ہے آپ دعا فرمائیں۔ حاتم عصم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ یا اللہ یا شافی الامراض اس بندے کا سر درد ٹھیک فرما دیجئے۔ ابھی دعا مکمل بھی نہیں ہوئی تھی سردار کا سر درد ایسا ٹھیک ہوا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ 
وہ بہت خوش ہوا اور حاتم عصم سے کہنے لگا آپ کہا جا رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا حج کے لیے۔ وہ حیران ہوا پیدل حج کے لیے جا رہے ہیں۔ جی میرے پاس وسائل نہیں ہیں بس اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے نکل کھڑا ہوا۔ سردار نے کہا آپ فکر ہی نہ کریں ہمارا قافلہ بھی حج کے لیے جا رہا ہے اب سے آپ کے حج کی تمام ذمہ داری ہماری آپ کے کھانے پینے اور یہاں تک کے واپس گھر جانے کا بھی ذمہ ہمارا۔ 
حاتم عصم کی آنکھوں میں شکرانے کے آنسو آ گئے واہ رے مولا تو کتنا اچھا ہے کتنا عظیم ہے کتنا پیارا ہے میں نے اپنا سب کچھ آپ کے اور آپ کے حبیب کے حوالے کر دیا اور آپ نے کتنا بہترین انتظام فرما دیا۔
حج کر کے واپسی لوٹ رہے تھے دل میں طرح طرح کے خدشات پتہ نہیں گھر والے کس حال میں ہوں گے دل میں الہام ہوا جو ہم پر توکل کرتا ہے ہم اسے ضائع نہیں ہونے دیتے۔ گھر پہنچے تو دیکھا گھر میں روٹی بھی تھی اور بوٹی بھی تھی بیگم نے سلطان کا سارا قصہ سنایا اور چھوٹی بیٹی کا بھی سارا احوال بتایا۔ حاتم عصم نے بچی کو گلے سے لگایا اور خوب پیار کیا۔ کہنے لگے جس کی اتنی پیاری بیٹی ہو جس کا اللہ تعالیٰ پر اتنا زبردست یقین ہو اس باپ کو پھر کاہے کا ڈر۔
دیکھا دوستوں اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کا انعام۔ اپنے اعمال کو درست کریں۔ نیکیوں کی زندگی گزاریں۔ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتے ہیں اسی میں ہماری بہتری ہے اس پر یقین رکھیں ہمارا رزاق اللہ تعالیٰ ہے اس بات کا کامل یقین رکھیں۔ اپنی چیزوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کرنے کی پکی عادت بنا لیں۔
فِی السَّمَآءِ  رِزۡقُکُمۡ  وَ مَا تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۲۲﴾
ترجمہ:اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔ (سورۃ الذاریات آیت نمبر 22)
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے اللہ تعالیٰ رسول کریم کے صدقے ہماری حفاظت فرمائے ہمیں شفایاب فرمائے اور ہمارے رزق میں خیر و برکت عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس پوسٹ پر اپنا خوبصورت تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سبھی پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مُضارع کی گردان لامِ تاکید اور نونِ ثقیلہ کے ساتھ

گلزار نستعلیق فونٹس میں پوسٹ