حزقیائیل فرشتہ

عرشی فرشتے کی عاجزی

تفسیر قرطبی میں حدیث پاک منقول ہے کہ جعفر ابن محمد اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ ﷻ کا ایک فرشتہ حزقیائیل ہے۔ اس کے آٹھ ہزار پر ہیں جن میں سے ہر دو کے درمیان پانسو برس کی راہ ہے۔اس کے دل میں خیال آیا کیا سارے عرش کو دیکھنا ممکن ہے؟ تو اللہ نے اس کے پروں کی تعداد بڑھا دی تو 36 ہزار پر ہوگئے جن میں ہر ایک کے درمیان پانسو برس کی مسافت ہے۔ پھر اسے وحی فرمائی کہ اے فرشتے، اڑ۔ وہ فرشتہ بیس ہزار برس اڑا تو عرش کے پائے کے سرے تک بھی نہ پہنچ سکا۔پھر اللہ ﷻ نے اس کے پروں اور طاقت کو دوگنا کردیا اور اڑنے کا حکم فرمایا۔ وہ تیس ہزار برس تک اڑا اور اب بھی عرش کے پائے کے سرے تک نہ پہنچ سکا۔ تو اللہ ﷻ نے فرشتے سے فرمایا لہ اے فرشتے! اگر تو صور پھونکے جانے تک اپنی ساری قوت اور پروں سے اڑے تب بھی عرش کے پائے کو نہ پہنچ سکے گا۔ تب فرشتے نے کہا ”سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى ” پس اللہ نے سورتِ اعلیٰ نازل فرمائی اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے اپنے سجدوں میں پڑھا کرو۔

تبصرے

  1. اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔۔جس رب کا عرش اتنا بڑا ہے وہ رب خود کتنا عظیم ہوگا ❤️

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اللہ نے اس کے پروں کی تعداد بڑھا دی تو 36 ہزار پر ہوگئے جن میں ہر ایک کے درمیان پانسو برس کی مسافت ہے۔
      پانسو برس کی راہ زمین و آسمان کی ہے، یعنی 36 ہزار آسمان۔ اتنے آسمانوں کی وسعت جو اپنے پروں میں سمیٹ کر چلے اور قیامت تک اڑے، سبحان اللہ رب العرش العظیم

      حذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس پوسٹ پر اپنا خوبصورت تبصرہ ضرور درج کریں۔ حسنِ اخلاق والے نرم تبصروں کو سبھی پسند کرتے ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مُضارع کی گردان لامِ تاکید اور نونِ ثقیلہ کے ساتھ

گلزار نستعلیق فونٹس میں پوسٹ